Friday, 7 April 2017

غزل نمبر 7

ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر و دیعتِ مژگان یار تھا

اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہر آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ تمثاں وار تھا

گلیوں میں میری لاش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سِررہ گزار تھا

موجِ سرابِ دشت وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ مثلِ جوہرِ تیغ آبدار تھا

کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو پَر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روز گار تھا

No comments:

Post a Comment