Thursday, 6 April 2017



کوئ    تارا    ٹوٹ     کے    گِر     گیا     کوئ     چاند    چھت    سے    اْتر    گیا
کوئ    آسماں     کی     چال    سے     جو     بِکھر    گیا     وہی      ہار     ہوں

وہی     سوکھے    سوکھے سے     پیڑ     ہیں    وہی    اْجڑی    اْجڑی   سی  ٹہنیاں
کوئ    پھول    جس   پہ     کِھلا     نہیں     غموں    کی   ایسی     بہار    ہوں...!!!

مْجھے    کیوں    بْلاتے     ہیں    پیار     سے ،   یہ    چہکتے    پنچھی   مْنڈیر     سے
میں    خموشی    کا     درد     ہوں     میں     اْداس    چاند    کا     پیار     ہوں...!!

میں     وہ    شعر     ہوں     جسے    آج    تک     نہ    کہا    گیا    نہ    سْنا    گیا
جسے    اْنگلیوں    نے     چْھوا      نہیں    وہی    بد نصیب      سِتار     ہوں......!!!

 نامعلوم

صوفیانہ کلام، ادب و تاریخ کے واقعات،  دلچسپ واقعات،حکایات،اقوالِِ زریں،سبق آموز قصے،کہانیاں پڑھنے کے لئے

اس پیج کو لائک کریں
تصویر اور تحریر بولتی ہے
https://www.facebook.com/Photospeaks895/

گروپ جوائن کریں
    "ادب و تاریخّ"
https://m.facebook.com/groups/1848472068706408?ref=bookmarks


واٹس ایپ گروپ
خلقہ ارباب ذوق
https://chat.whatsapp.com/7n5TGCQA7ICHIjMi92yArT

ادب و تاریخ: جہالت

ادب و تاریخ: جہالت: �� *کیا #سرگودھا میں پیر صاحب نے واقعی میں ابراھیم علیہ السلام والا عمل کیا ؟* �� سرگودھا میں جس پیر نے 20 لوگوں کو مزار پر نشہ دے کر بے ...
پیارے ابو جان اور امی جان​
مجھے آج ملک سے باہر پانچ سال ہو گئے اور میں اگلے ماہ اپنے وطن واپسی کا ارداہ کر رہا ہوں، میں نے اپنے ویزا کے لیے جو قرض لیا تھا وہ ادا کر چکا ہوں اور کچھ اخراجات پچھلی چھٹی پر ہو گئے تھے۔ تحفے تحائف لینے میں اور کچھ دیگر اخراجات۔ اب میرے پاس کوئی بڑی رقم موجود نہیں لیکن میری صحت ابھی ٹھیک ہے اور میں خود کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ پاکستان جا کر کوئی بھی اچھی نوکری کر سکوں اور گھر کے اخراجات چلا سکوں۔ یہ جگہ مجھے پسند نہیں ہے میں اپنے گھر رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں​
آپکا پیارا – جمال​

پیارے بیٹے جمال​
تمھارا خط ملا اور ہمیں تمھاری چھٹی کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوئی۔باقی تمھاری امی کہہ رہی تھی کہ گھر کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے اور تم جانتے ہو برسات شروع ہونے والی ہے۔ یہ گھر رہنے کے قابل نہیں ہے۔ گھر چونکہ پرانی اینٹوں اورلکڑیوں سے بنا ہے اس لیے اس کی مرمت پر کافی خرچ آئے گا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کنکریٹ اور سیمینٹ سے بنا ہوا گھر ہو تو بہت اچھا ہو۔ ایک اچھا اور نیا گھر وقت کی ضرورت ہے۔ تم جانتے ہو یہاں کے کیا حالات ہیں اگر تم یہاں آ کر کام کرو گے تو اپنی محدود سی کمائی سے گھر کیسے بنا پاؤ گے۔ خیر گھر کا ذکر تو ویسے ہی کر دیا آگے جیسے تمھاری مرضی۔​
تمھاری پیاری امی اور ابو۔​

پیارے ابو جان اور امی جان​
میں حساب لگا رہاتھا آج مجھے پردیس میں دس سال ہو چکے ہیں۔ اب میں اکثر تھکا تھکا رہتا ہوں، گھر کی بہت یاد آتی ہے اور اس ریگستان میں کوئی ساتھی نہیں ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اگلے ماہ ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے گھر آجاؤں۔ دس سال کے عرصے میں الحمدللہ ہمارا پکا گھر بن چکا ہے اور جو ہمارے اوپر جو قرضے تھے وہ بھی میں اتار چکا ہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ اپنے وطن آ کر رہنے لگ جاؤں۔ اب پہلے والی ہمت تو نہیں رہی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کر کے ، ٹیکسی چلا کے گھر کا خرچ چلا لوں گا۔ اس ریگستان سے میرا جی بھر گیا ہے۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے۔​
آپکا پیارا – جمال​

پیارے بیٹے جمال​
تمھارا خط ملا اور ہم پچھتا رہے ہیں اس وقت کو جب ہم نے تمھیں باہر جانے دیا، تم ہمارے لیے اپنے لڑکپن سے ہی کام کرنے لگ گئے۔ ایک چھوٹی سے بات کہنی تھی بیٹا۔ تمھاری بہنا زینب اب بڑی ہو گئی ہے ، اس کی عمر ۲۰ سے اوپر ہو گئی۔ اس کی شادی کے لیے کچھ سوچا ، کوئی بچت کر رکھی ہے اس لیے کہ نہیں۔ بیٹا ہماری تو اب یہی خواہش ہے کہ زینب کی شادی ہو جائے اور ہم اطمینان سے مر سکیں۔ بیٹا ناراض مت ہونا ، ہم تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔​
تمھاری پیاری امی اور ابو۔​

پیارے ابو جان اور امی جان​
آج مجھے پردیس میں چودہ سال ہو گئے۔ یہاں کوئی اپنا نہیں ہے۔ دن رات گدھے کی طرح کام کر کے میں بیزار ہو چکا ہوں، کمھار کا گدھا جب دن بھر کام کرتا رہتا ہے تو رات کو گھر لا کر اس کا مالک اس کے آگے پٹھے ڈال دیتا ہے اور اسے پانی بھی پلاتا ہے پر میرے لیے تو وہ بھی کوئی نہیں کرتا، کھانا پینا بھی مجھے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ بس اب میں ویزا ختم کروا کر واپس آنے کا سوچ رہا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں میں اللہ کی مدد سے ہم زندگی کی بیشتر آزمائشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ زینب بہنا کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ اپنے گھر میں سکھی ہے۔ اس کے سسرال والوں کو خوش رکھنے کے لیے میں اکثر تحفے تحائف بھی بھیج دیتا ہوں۔ اللہ کے کرم سے آپ لوگوں کو میں نے حج بھی کروا دیا اور کوئی قرضہ بھی باقی نہیں ہے۔ بس کچھ بیمار رہنے لگا ہوں، بی پی بڑھا ہوا ہے اور شوگر بھی ہو گئی ہے لیکن جب گھرآؤں گا، گھر کے پرسکون ماحول میں رہوں گا اور گھرکا کھانا کھاؤں گا تو انشاء اللہ اچھا ہو جاؤں گا اور ویسے بھی اگر یہاں مزید رہا تو میری تنخواہ تو دوائی دارو میں چلی جائے گی وہاں آ کر کسی حکیم سے سستی دوائی لے کر کام چلا لوں گا۔ اب بھی مجھ میں اتنی سکت ہے کہ کوئی ہلکا کام جیسے پرائیویٹ گاڑی چلانا کر لوں گا۔​
آپکا پیارا – جمال​

پیارے بیٹے جمال​
بیٹا ہم تمھارا خط پڑھ کر کافی دیر روتے رہے۔ اب تم پردیس مت رہنا لیکن تمھاری بیوی زہرہ نے کچھ کہنا تھا تم سے ، اسکی بات بھی سن لو۔​
(بیوی ) پیارے  جمال​
میں نے کبھی آپکو کسی کام کے لیے مجبور نہیں کیا اور کسی چیز کے لیے کبھی ضد نہیں کی لیکن اب مجبوری میں کچھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے۔ آپکے بھائی جلال کی شادی کے بعد آپ کے والدین تو مکمل طور پر ہمیں بھول چکے ہیں ان کا تمام پیار نئی نویلی دلہن کے لیے ہے ، میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ آبائی گھر جلال کو دینے کا سوچ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے اگر آپ یہاں آ گئے اور مستقبل میں کبھی اس بات پر جھگڑا ہو گیا تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچے لے کر کہاں جائیں گے۔ اپنا گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ کو پتہ ہے سیمنٹ سریہ کی قیمتیں کتنی ہیں؟ مزدوروں کی دیہاڑی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ یہاں رہ کر ہم کبھی بھی اپنا گھر نہیں بنا سکیں گے۔ لیکن میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ آپ خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔​
آپکی پیاری جان۔ زہرہ​

پیاری شریک حیات زہرہ​
انیسواں سال چل رہا ہےپردیس میں، اور بیسواں بھی جلد ہی ہو جائے گا۔ اللہ کے فضل سے ہمارا نیا علیحدہ گھر مکمل ہو چکا ہے۔ اور گھرمیں آج کے دور کی تمام آسائشیں بھی لگ چکی ہیں۔ اب تمام قرضوں کے بوجھ سے کمر سیدھی ہو چکی ہے میری ، اب میرے پاس ریٹائرمنٹ فنڈ کے سوا کچھ نہیں بچا، میری نوکری کی مدت بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ اس ماہ کے اختتام پر کمپنی میرا ریٹائرمنٹ فنڈ جو کہ ۲۵۰۰ ہزار درہم ہے جاری کردے گی۔ اتنے لمبے عرصے اپنے گھر والوں سے دور رہنے کے بعد میں بھول ہی گیا ہوں کہ گھر میں رہنا کیسا ہوتا ہے۔بہت سے عزیز دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور بہت سوں کی شکل تک مجھے بھول گئی۔ لیکن میں مطمئن ہوں ، اللہ کے کرم ہے کہ میں گھر والوں کو اچھی زندگی مہیا کر سکا اور اپنوں کے کام آسکا۔ اب بالوں میں چاندی اتر آئی ہے اور طبیعت بھی کچھ اچھی نہیں رہتی۔ ہر ہفتہ ڈیڑھ بعد ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب میں واپس آکر اپنوں میں رہوں گا۔ اپنی پیاری شریک حیات اور عزیز از جان بچوں کے سامنے۔​
تمھارا شریک سفر – جمال​

پیارے  جمال​
آپ کے آنے کا سن کر میں بہت خوش ہوں۔ چاہے پردیس میں کچھ لمبا قیام ہی ہو گیا لیکن یہ اچھی خبر ہے ۔ مجھے تو آپکے آنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بڑا بیٹا احمد ہے نا، وہ ضد کر رہا ہے کہ یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لے گا۔ میرٹ تو اس کا بنا نہیں مگر سیلف فنانس سے داخلہ مل ہی جائے گا۔ کہتا ہے کہ جن کے ابو باہر ہوتے ہیں سب یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لیتے ہیں۔ پہلے سال چار لاکھ فیس ہے اور اگلے تین سال میں ہر سال تین تین لاکھ۔ اور ہم نے پتہ کروایا ہے تو یونیورسٹی والے انسٹالمنٹ میں فیس بھرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ اس ماہ کی ۳۰ تک فیس کی پہلی قسط بھرنی پڑے گی،​
آپکے جواب کی منتطر ، آپکی پیاری جان۔ زہرہ​

اس نے بیٹے کی پڑھائی کے لیے ساری رقم بھیج دی۔ بیٹی کی شادی کے لیے جہیز اور دیگر اخراجات بھیجے۔ مگر اب ستائیس سال ہو چکے تھے۔ وہ خود کو ائر پورٹ کی طرف گھسیٹ رہا تھا۔ شوگر، بلڈ پریشر، السر ،گردے و کمر کا درد اورجھریوں والا سیاہ چہرا اس کی کمائی تھا۔ اسے اچانک اپنی جیب میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ ایک ان کھلا خط تھا۔​

یہ وہ پہلا خط تھا جو اس نے اپنی پردیس کی زندگی میں نہیں کھولا ۔
☄☄☄☄☄☄☄☄☄☄
سب سے پہلے سینڈ کر دو
کیونکہ جب تک کوئی یہ پیغامات پڑھتا رہے گاf
جنت میں آپ کے نام کا درخت لگتا رہے گا
Dont Stop

گھر میں غربت آنے کے اسباب ..

1 = غسل کھانے میں پیشاب کرنا

2 = ٹوٹي ہوئی كنگھي سے كنگا ​​کرنا

3 = ٹوٹا هوا سامان استعمال کرنا

4 = گھر میں كوڑا़ کرکٹ رکھنا

5 = رشتےدارو سے بدسلوکی کرنا

6 = بائیں پیر سے پیجاما پہننا

7 = مغرب عشاء کے درمیان سونا

8 = مہمان آنے پر ناراض ہونا

9 = آمدنی سے زیادہ خرچ کرنا

10 = دانت سے روٹی کاٹ کر کھانا

11 = چالیس دن سے زیادہ زیر  ناف کے بال رکھنا

12 = دانت سے ناخن کاٹنا

13 = کھڑے کھڑے پیجاما پہننا

14 = عورتوں کا کھڑے کھڑے بال باندھنا

15 = پھٹے ہوئے کپڑے جسم پر سینہ

16 = صبح سورج نکلنے تک سونا

17 = درخت کے نیچے پیشاب کرنا

18 = بیت الخلا میں باتیں کرنا

19 = الٹا سونا

20 = قبرستان میں هسنا

21 = پینے کا پانی رات میں کھلا رکھنا

22 = رات میں سوالي کو کچھ نہ دینا

23 = برے خیالات کرنا

24 = بغیر وضو کے قرآن مجید پڑھنا

25 = استنجا کرتے وقت باتیں کرنا

26 = ہاتھ دھوئے بغیر کھانا كھنا

27 = اپنی اولاد کو كوسنا

28 = دروازے پر بیٹھنا

29 = لہسن پیاز کے چھلکے جلانا

30 = فقیر سے روٹی یا پھر اور کوئی چیز خریدنا

31 = پھونک سے چراغ بجھانے

32 = بسم اللہ پڑھے़ بغیر کھانا

33 = غلط قسم کھانا

34 = جوتا چپل الٹا دیکھ کر سیدھا نہیں کرنا

35 = حالات جنابت میں حجامت کرنا

36 = مکڑی کا جالا گھر میں رکھنا

37 = رات کو جھاڑو لگانا

38 = اندھیرے میں کھانا

39 = گھڑے میں منہ لگا کر پینا

40 = قرآن مجید نہ پڑھنا

حدیث میں ہے کہ جو دوسروں کا بھلا کرتا ہے.
اللہ اس کا بھلا کرتا ہے.
                       ..
چھوٹی سی دعا

"اے اللہ"
جب تو اپنی رحمتوں کے دروازے کھولے اور پکارے ...
"ہے کوئی رحمت مانگنے والا؟
ہے کوئی خوشیاں مانگنے والا؟
ہے کوئی شفا مانگنے والا؟
ہے کوئی میرے "محبوب"
(صلی اللہ علیہ وسلم) "
کی چاہت مانگنے والا؟

تو میری دعا ہے،
"یا اللہ"
ساری خوشی
ساری رحمت
ساری كاميابياں
ساری بركتیں
ساری نعمتیں
"نبی اے پاک"
(صلی اللہ علیہ وسلم) "
کی چاہت اس شخص کو دےدے جو یہ میسیج پڑھ کے دوسرے کو بھی اس خوبصورت دعا میں شامل کرے ...!
* آمین *
[9:نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا.
إن موقعوں پر دعا مانگو اس وقت دعا رد نہیں ہو گی.
1؛-جب دھوپ میں بارش ہو رہی ہو.
2:- جب اذان ہو رہی ہو.
3:- سفر کے دوران.
4:-جمعہ کے دن.
5:-رات کو جب آنکھ کھلے
اس وقت.
6:-مصیبت کے وقت.
7:-فرض نماؤں کے بعد.
آپ (صل اللہ علیہ و سلم ) نے فرمایا:- اللہ👈اس کے چہرے کو روشن کرے.  جو حدیث سن کے آگے پہنچاتا ہے.
(1:-سبحان الله. )
)2:-الحمد وللہ)
)3:-الله آکبر)
پہلے سنڈ کر دو، کیونکہ جب تک کوئی یہ میسج پڑتا رہے گا.
جنت میں آپ کے نام کے پیڑ لگتے رہیں گے.
💧💧💧💧💧💧💧💧💧💧
اَللّٰهُمَّ أَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِیْ هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِیْ وَأَصْلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِیْ فِیْهَا مَعَاشِیْ وَأَصْلِحْ لِیْ آخِرَتِی الَّتِیْ فِیْهَا مَعَادِیْ وَاجْعَلِ الْحَیَاةَ زِیَادَةً لِیْ فِی كُلِّ خَیْرٍ وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِیْ مِنْ كُلِّ شَرٍّ

اے الله !میرے دین کو درست فرما جو میرے معاملات کا محافظ ہے اور میری دنیا کو درست فرما جس میں میرا معاش ہے اور میری آخرت کو درست فرما جس میں میرا لوٹنا ہے اور میریے لیے زندگی کو ہر بھلائی میںاضا فے کا باعث بنا دے اور موت کو میرے لیے ہر شر سے راحت بنا دے ۔
عظیم باکسر محمد علی کا اپنی بیٹی سے مکالمہ
جب ہم وہاں پہنچے اور ڈرائیور نے مجھے اور میری بہن لیلی کو
میرے والد کے ہوٹل کے کمرے تک پہنچایا میرا باپ ہمیشہ کی مانند دروازے کے پیچھے چھپا ہوا تھا
 تا کہ ہمیں ڈرا سکے ہم بیٹیاں اپنے باپ سے ملیں ایک دوسرے سے فرط جذبات سے لپٹ گئے ایک دوسرے کو گلے لگایا
پھر میرے باپ نے مجھے گود میں بٹھا کر ایک بات کہی جو میں کبھی نہیں بھول سکتی
 میرے باپ نے میری آنکھوں میں دیکھا اور کہا
"حینا ! اللہ پاک نے اس دنیا جو بھی بیش قیمت اور انمول چیز بنائی ہے وہ چھپی ہوئی ہے
اسے پانا مشکل ہے۔ہیرے کہاں پائے جاتے ہیں؟
زمین کی نچلی تہوں میں، نظروں سے اوجھل اور چھپے ہوئے۔۔موتی کہاں ملتے ہیں؟
 سمندر کی تہوں میں چھپے ہوئے نظروں سے اوجھل ،
خوبصورت سیپوں میں محفوظ۔۔۔۔سونا کہاں سے ملتا ہے؟
چٹانوں کی بے شمار تہوں کے نیچے کان کے بیچ کہیں جا کر سونا ملتا ہے۔
ان سب چیزوں تک پہنچنے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے"
اس کے بعد میرے باپ نے میری جانب سنجیدہ نگاہوں سے دیکھا اور کہا
" تمہارا جسم بھی ایک سیکرٹ ہے
اور ان سب چیزوں ہیرے اور موتیوں سے زیادہ قیمتی ہے
 تمہیں بھی اسے چھپا کر رکھنا چاہیے،،"
🚫 *واٹس اپ کا استعمال کرنے والے* 🚫
🚫 *WHATSAPP K ISTEMAL KARNE WAALE* 🚫

👇 _ان 4 باتوں کا خیال رکھیں_👇

*👇🏼IN 4 BAATON KA KHAYAAL RAKHEIN 👇🏼*

1⃣ کسی *اسلامی مہینے کی مبارکباد* دینے سے *جنت* واجب نہیں ہوتی.❌
1⃣ *KISI ISLAAMI MAHINE KI MUBAARAK BAAD DENE SE JANNAT WAAJIB NAHI HOTI*❌

2⃣ خوشخبری *اللہ تعالی* دیتا ہے 10 لوگوں کو SEND کرنے سے نہیں ملتی.❌
2⃣ *KHUSH KHABRI ALLAH TA'ALA DETA HAI 10 LOGON KO SEND KARNE SE NAHI MILTI*❌

3⃣ پیارے *نبی صلی اللہ علیہ وسلم* کی قسم دے کر *MsG Forward* کرنے کو کہنا حرام ہے. ❌
3⃣ *PAYAARE NABI Sall Allahu Alaihe Wasallam KI QASAM DE KAR MSG FORWARD KARNE KO KAHNA HARAAM HAI*❌

4⃣ کوئی بھی *قرآنی آیات، حدیث پاک* یا کسی *صحابی کا قول* کنفرم کئے بغیر *Share* نہ کریں.❌
4⃣ *KOI BHI QUR'AANI AAYAT HADEES PAAK YA KISI SAHABI KA QAUL COUNFURM KIYE BAGAIR SHARE NA KARE*❌

🔘 *اس کو شیئر کریں تاکہ لوگوں کی اصلاح ہو جائے* جزاک اللہ
🔘 *IS KO SHARE KAREN TAKE LOGON KI ISLAAH HO JAAYE*
*JAZAKALLAH*

دریائے نیل

٭٭دریائے نیل ٭٭
دنیا کے سب سے بڑے دریا کے بارے کچھ دلچسپ و عجیب

دریائے نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً 6670 کلو میٹر ہے۔ یہ افریقہ کی سب سے بڑی جھیل وکٹوریہ جھیل سے نکلتا ہے۔ اس علاقے میں بارش بہت ہوتی ہے، لہٰذا بہت گھنے جگلات پائے جاتے ہیں، ان جنگلات میں ہاتھی، شیر، گینڈے، جنگلی بھینسے، ہرن، نیل گائے اور دریائی گھوڑے(ہپو)، مگرمچھ اور گھڑیال وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کو "نیشنل پارک" کا درجہ حاصل ہے۔

جب یہ دریا سوڈان میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت سست ہوجاتی ہے، کیوں کہ دریا ایک زبردست دلدل سے گزرتا ہے۔ یہ دلدل دنیا کا سب سے بڑا دلدل ہے یعنی 700 کلو میٹر لمبا ہے۔ یہاں ایک قسم کی گھاس پاپائرس پائی جاتی ہے، جو پورے دلدل پر چھائی رہتی ہے۔ یہ اتنی گھنی، گتھی اور مضبوط ہے کہ اس پر ایک ہاتھی کھڑا ہوجائے تو وہ نیچے نہیں جائے گا اور سیدھا کھڑا رہے گا۔ دریا کا پانی گھاس کے نیچے نیچے بہتا ہے۔ پتا نہیں چلتا کہ پانی کہاں ہے۔ یہاں سارس، بگلے اور پانی میں رہنے والی مختلف چڑیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ انگریزی کا لفاظ پیپر اسی لفظ پاپائرس سے بنا ہے اور اسی گھاس سے کاغذ بنایا جاتا ہے

دریائے نیل کے سارے مددگار (معاون) دریا، حبشہ کے پہاڑوں سے نکل کر اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اور اہم دریا نیلا ہے اور نیل کہلاتا ہے۔ یہ دریا حبشہ میں جھیل تانا سے نکلتا ہے اور فوراً بعد آبشار کی صورت میں ایک نہایت گہرے کھڈ میں گرتا ہے اور بہتا ہوا خرطوم کے مقام پر دریائے نیل میں مل جاتا ہے۔ خرطوم کے بعد اتبارا کے مقام پر اتبارا نام کا ایک اور دریا، دریائے نیل میں شامل ہوتا ہے۔ یہ بھی حبشہ کے پہاڑوں سے جھیل تانا کے قریب سے نکلتا ہے۔

خرطوم کے بعد دریائے نیل میں کئی اتار (یعنی ڈھال جو ایک دم نیچے اترتا ہو) آتے ہیں۔ یہ تقریباً چھے مقامات پر ہیں۔ دریا کی تہہ میں بڑی مضبوط اور نوکیلی چٹانیں ہیں۔ ان کو دریائے نیل کی رکاوٹیں کہا جاتا ہے۔ ان مقامات سے کشتیاں یا موٹر بوٹس نہیں گزر سکتے۔

سوڈان میں مصر کی سرحد پر دریائے نیل انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی جھیل یعنی جھیل ناصر میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اسوان کے مقام پر اسوان بند باندھا گیا ہے۔ اس بند سے دریا کا پانی رک گیا ہے اور ایک جھیل بن گئی ہے۔ اس بند سے آب پاشی کے لیے نہریں نکالی گئی ہیں اور پانی کو سرنگوں سے گزار کر اس پانی سے بجلی پیدا کی گئی ہے۔ اسوان بند کی نہروں سے دریائے نیل کے دونوں طرف 50۔50 میل تک کاشت کاری ہوتی ہے اور علاقہ نہایت سر سبز و شاداب اور آباد ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے مصر کو دریائے نیل کا تحفہ کہا جاتا ہے، جیسے ہمارے ملک میں صوبہ سندھ کو دریائے سندھ کا تحفہ کہا جاتا ہے۔

قاہرہ سے گزر کر دریا بہت خاموشی اور آہستہ آہستہ مختلف شاخوں میں بٹ کر اسکندریہ کے قریب بحیرہ روم میں گر جاتا ہے۔ دریا کی رفتار اور پانی کی کیفیت معلوم کرنے کے لیے مصری لوگ ایک پیمانہ بناتے تھے۔ یہ دریا کے کنارے ایک کمرا ہوتا تھا۔ اسے نیلو میٹر کہتے تھے۔ اس میں ایک سرنگ سے دریا کا پانی آتا رہتا تھا۔ اس پیمانے سے پانی کی حرارت، رنگ اور کیفیت معلوم ہوتی اور اس کا سال بھر ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔ ریکارڈ سے معلوم ہوتا تھا کہ طغیانی آئے گی یا نہیں اور اگر آئے گی تو کیا اثرات ہوں گے۔ فصلوں کے لیے اچھی ہوگی یا نقصان دہ ہوگی۔

قدیم لوگوں کو علم ہی نہیں تھا کہ دریائے نیل کہاں سے نکلتا ہے، حالاں کہ ہزاروں سال سے لوگ اس کی وادی میں رہتے بستے آئے تھے۔ تہذیبیں جنم لیتی رہیں اور مٹتی رہیں، مگر کسی نے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کہ یہ کہاں سے نکلتا ہے، کن کن مقامات سے گزرتا ہے۔

سترھویں صدی میں کوشش کی گئی کہ دریا کے نکلنے کی جگہ معلوم کی جائے تو معلوم ہوا کہ یہ دریا جھیل تانا سے نکلتا ہے مگر اس کے کنارے کنارے کوئی چل نہ سکا، کیوں کہ یہ بڑے خطرناک پہاڑوں اور کھڈوں میں گزرتا ہے۔ دریا کے تیز پانی نے چٹانوں کو کچھ اس طرح کاٹا ہے کہ دونوں طرف دیواریں سی بن گئی ہیں اور ان چٹانی دیواروں پر سے کوئی گزر نہیں سکتا۔

اٹھارویں صدی میں یورپی سیاحوں نے افریقہ کے اندرونی علاقے دریافت کرنا شروع کیے۔ رچرڈ برٹن اور جان ہیننگ ٹن اسپیک 1857ء میں افریقہ کے مشرقی ساحل سے روانہ ہوئے۔ دشوار گزار راستوں، جنگلوں اور پہاڑوں سے گزرے، مچھروں کی وجہ سے ملیریا میں مبتلا ہوئے۔ برٹن اتنا بیمار ہوا کہ آگے نہ بڑھ سکا، مگر اسپیک چلتا رہا اور جھیل وکٹوریہ تک پہنچ گیا۔ اسپیک کے مطابق یہی جھیل دریا نیل کے نکلنے کی جگہ تھی، جس کو دنیا نے تسلیم کرلیا۔ یہ جھیل یوگنڈا میں ہے۔ کمپلا، یوگنڈا کا دارالحکومت ہے، جو اسی جھیل کے کنارے آباد ہے۔

وادی نیل کا سب سے بڑا شہر قاہرہ ہے۔ یہاں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی "جامعہ الازہر" واقع ہے۔ قاہرہ کے قریب اہرام اور ابو الہول واقع ہیں۔ مصری بادشاہوں کے مقبرے ہیں، جن میں ممی (مسالا لگی لاشیں) رکھی ہوئی ہیں۔ یہ حنوط شدہ لاشیں آج تک ویسی ہی ہیں، گلی سڑی نہیں، قاہرہ کا عجائب گھر بھی دیکھنے کے لائق ہے۔

دریائے نیل کے دہانے پر اسکندریہ کا شہر آباد ہے۔ اس کا نام سکندر اعظم کے نام پر ہے۔ یہاں ایک لائٹ ہاؤس بھی تھا جو عجائبات عالم میں شمار ہوتا تھا، مگر زلزلے نے اس کو گرا دیا۔

تیسرا بڑا شہر خرطوم ہے۔ خرطوم کے معنی "ہاتھی کی سونڈ" کے ہیں۔ یہ سوڈان کا دارالحکومت ہے۔ نیا خرطوم انگریزوں نے آباد کیا ہے اور اس کی منصوبہ بندی اپنے جھنڈے "یونین جیک" کی طرح ہے۔ ایسی ہی یونین جیک جیسی منصوبہ بندی پاکستان کے شہر فیصل آباد کی بھی انگریزوں نے کی تھی۔

صوفیانہ کلام، ادب و تاریخ کے واقعات،  دلچسپ واقعات،حکایات،اقوالِِ زریں،سبق آموز قصے،کہانیاں پڑھنے کے لئے

اس پیج کو لائک کریں
تصویر اور تحریر بولتی ہے
https://www.facebook.com/Photospeaks895/

گروپ جوائن کریں
    "ادب و تاریخّ"
https://m.facebook.com/groups/1848472068706408?ref=bookmarks

واٹس ایپ گروپ
خلقہ ارباب ذوق
  • https://chat.whatsapp.com/7n5TGCQA7ICHIjMi92yArT
*#چھوٹی_سی_کہانی*
ایک شخص نے *سُود* لِیا، اپنی اولاد پر لگایا،
اور!
اُس کی ساری اولادیں
بے سود نکلیں
*#ختم_شُد*
(سود كا انجام)

صوفیانہ کلام، ادب و تاریخ کے واقعات،  دلچسپ واقعات،حکایات،اقوالِِ زریں،سبق آموز قصے،کہانیاں پڑھنے کے لئے

اس پیج کو لائک کریں
تصویر اور تحریر بولتی ہے
https://www.facebook.com/Photospeaks895/

گروپ جوائن کریں
    "ادب و تاریخّ"
https://m.facebook.com/groups/1848472068706408?ref=bookmarks

واٹس ایپ گروپ
خلقہ ارباب ذوق
https://chat.whatsapp.com/7n5TGCQA7ICHIjMi92yArT
عظیم باکسر محمد علی کا اپنی بیٹی سے مکالمہ
جب ہم وہاں پہنچے اور ڈرائیور نے مجھے اور میری بہن لیلی کو
میرے والد کے ہوٹل کے کمرے تک پہنچایا میرا باپ ہمیشہ کی مانند دروازے کے پیچھے چھپا ہوا تھا
 تا کہ ہمیں ڈرا سکے ہم بیٹیاں اپنے باپ سے ملیں ایک دوسرے سے فرط جذبات سے لپٹ گئے ایک دوسرے کو گلے لگایا
پھر میرے باپ نے مجھے گود میں بٹھا کر ایک بات کہی جو میں کبھی نہیں بھول سکتی
 میرے باپ نے میری آنکھوں میں دیکھا اور کہا
"حینا ! اللہ پاک نے اس دنیا جو بھی بیش قیمت اور انمول چیز بنائی ہے وہ چھپی ہوئی ہے
اسے پانا مشکل ہے۔ہیرے کہاں پائے جاتے ہیں؟
زمین کی نچلی تہوں میں، نظروں سے اوجھل اور چھپے ہوئے۔۔موتی کہاں ملتے ہیں؟
 سمندر کی تہوں میں چھپے ہوئے نظروں سے اوجھل ،
خوبصورت سیپوں میں محفوظ۔۔۔۔سونا کہاں سے ملتا ہے؟
چٹانوں کی بے شمار تہوں کے نیچے کان کے بیچ کہیں جا کر سونا ملتا ہے۔
ان سب چیزوں تک پہنچنے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے"
اس کے بعد میرے باپ نے میری جانب سنجیدہ نگاہوں سے دیکھا اور کہا
" تمہارا جسم بھی ایک سیکرٹ ہے
اور ان سب چیزوں ہیرے اور موتیوں سے زیادہ قیمتی ہے
 تمہیں بھی اسے چھپا کر رکھنا چاہیے،،"

جہالت

🕸 *کیا #سرگودھا میں پیر صاحب نے واقعی میں ابراھیم علیہ السلام والا عمل کیا ؟* 🕸

سرگودھا میں جس پیر نے 20 لوگوں کو مزار پر نشہ دے کر بے دردی سے ذبح کیا ملزم نےعدالت میں بیان دیا ہے کہ قتل کرنے والے اولاد کی طرح تھے اورمیں نے جو عمل کیا وہ ابراھیم علیہ السلام کی طرح کیا. 4 اپریل 2017 جنگ لاہور میں یہ خبر شائع ہوئی۔
اس بدبخت مردہ پرست پیر نےایک برگزیدہ نبی سیدنا ابراھیم علیہ السلام کا نام استعمال کرکے غلط فہمی پھیلانےکی کوشش کی ہے اور تھوڑا سا علم رکھنے والے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بالکل جہالت پر مبنی دعوی ہے، لیکن اس لیے اس کا رد لکھنا ضروری ہے تاکہ کم علم لوگ اس کی باتوں میں نہ آئیں یا لبرلزاور ملحدین کواسلام کے خلاف خبث باطن ظاہرکرنے کا موقع میسر نہ ہو۔ اس مجرم کا دعوی بالکل بے بنیاد ہے اورمندرجہ ذیل نکات کی روشنی میں مردود ہے:

1۔ سیدنا ابراھیم علیہ السلام ابوالانبیاء تھےاورخالص توحید کی دعوت دینے والے نبی تھے، قرآن میں ان کے توحید پر مبنی قصص موجود ہیں بلکہ بت پرستی اور غیر اللہ کو پکارنے والوں کے سخت دشمن تھے، جہاں تک اس پیر کا تعلق ہے تو یہ قبر کا مجاور، غیر اللہ کو پکارنے والا بلکہ غیر اللہ کوپکارنے کی دعوت دینا والا انسان شرک کا ٹھیکیداربنا ہے. اگر واقعی میں اس کوابراھیم علیہ السلام والے عمل عزیز تھے تو پھراس کو چاہیے تھا کہ یہ مزاروں کو ختم کرتا، خالص توحید کی دعوت دیتا کیونکہ ابراھیم علیہ السلام حنیف تھے یعنی "اللہ واحد کا پرستاراور سب سے کٹ کر اسی کی عبادت کرنے والا (تفسیر احسن البیان)" . کہاں خالص اللہ کی عبادت کرنے والا توحید پرستوں کا امام ابراھیم علیہ السلام اور کہاں یہ مزاروں پرغیر اللہ کو پوجنے والا اللہ کی توحید کا دشمن پیر؟

2۔ سیدنا ابراھیم علیہ السلام کا بیٹا کیا روحانی تھا ؟ انہوں نے تو اپنے سگے بیٹے کو قربانی کیلئے پیش کیا تھا اب یہ پیر صاحب بتائے کہ کیا اس نے بھی اپنا سگا بیٹا ذبح کیا تھا ؟ اور پھر نشہ دے کر برہنہ کرکے ذبح کرنا کونسی سنت ہے ؟

3 ۔سیدنا ابراھیم علیہ السلام تو نبی تھے ان کو اللہ کی طرف سے وحی ہوتی تھی اور انبیاء علیھم السلام کے خواب بھی وحی اوراحکام الہی ہوتے ہیں لہذا ابراھیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی بجا آوری کیلئے یہ قربانی پیش کی اورانبیاء علیھم السلام معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں. پیر صاحب کیا معصوم عن الخطاء ہیں یا وحی کا دعوی کرکے نبوت کا دعویدارتو نہیں ؟

4۔ کیا ابراھیم علیہ السلام کا بیٹا اسماعیل علیہ السلام ذبح ہوگیا تھا ؟ جی نہیں ! ابراھیم علیہ السلام کے اکلوتے بیٹے کی جگہ اللہ نے مینڈھا بھیجا تھا، پیر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ بھی لوگوں کو باندھ کر بکرے ذبح کردیتا تاکہ لوگوں کی جانیں توحرام کی موت نہ جاتیں.

5۔ پیر صاحب نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ وہ جھاڑ پھونک سے دوبارہ ان 20 افراد کو زندہ کرسکتا ہے ! پیر صاحب سے گذارش ہے کہ انسان تو دور کی بات وہ ایک مکھی زندہ کرکے دکھائیں، ابراھیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم سے چار مختلف پرندوں کے ٹکڑے کرکے پہاڑ پررکھ کر ان کو بلایا تو اللہ نے اپنی قدرت سے ان کو زندہ کیا.اچھا ہوتا پیر صاحب پہلے مکھیوں اور جانوروں پر پریکٹس کرتے تاکہ اس کو اپنی اصلیت کا پتہ چل جاتا اور بیس لوگ بھی جہالت کی موت نہ مرتے.

یہ چند باتیں ذکر کی ہیں امید ہے لبرلزاوراسلام دشمن مافیا کو جواب مل گیا ہوگا جو اس واقعہ کو بنیاد بنا کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں، اس کےعلاوہ جو لوگ پیر پرستی میں پڑ کراپنا ایمان، اپنی دولت اورعزت اور اپنی جانیں ضائع کروا رہے ہیں ان کیلئے عبرت حاصل کرنے کا مقام ہے، ایک اللہ کو چھوڑ کر دوسرے کے آگے جھکنے کا یہی انجام ہوتا ہے، وہ سیدنا یوسف علیہ السلام کی اس نصیحت کو قبول کرکے اپنی دنیا وآخرت کو سنواریں .
{ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّار}
کیا متفرق کئی ایک پروردگار بہتر ہیں؟ یا ایک اللہ زبردست طاقتور۔[يوسف:39]


خوف خدا

~" حکمران جوابدہ ہے۔۔۔۔
ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﺟﺐ ملعون ﺍﺑﻮ ﻟﻮﻟﻮ ﻓﯿﺮﻭﺯ  ﻧﮯ ﺧﻨﺠﺮ ﻣﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺁﭘﮑﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﻭﻗﺖ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻟﭩﺎﺩﻭ۔ ﺁﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻧﺎﮎ ﺭﮔﮍﺗﮯ تھے ﺭﻭﺗﮯ تھے ﺍﻭﺭ کہتے تھے ﮐﮧ " ﺍﮮ ﺍﻟﻠﻪ ! مجھے ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﮮ " ۔ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﮐﺮﻡ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺟﮩﮧ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮِ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ؓ" ﻋﻤﺮ ؓ ! ﮐﯿﺎ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﮈﺭﮔﺌﮯ ﮨﻮ ! ... ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻤﺮِ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ " ﺍﮮ ﻋﻠﯽؓ ! ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺭﺭﮨﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ ﻓﺮﺽ ﮐﯽ ﺟﻮﺍﺑﺪﮨﯽ ﺳﮯ ﮈﺭﺭﮨﺎﮨﻮﮞ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﻪ ﻧﮯ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﭘﮧ ﮈﺍﻻ ﺗﮭﺎ ۔ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻓﺮﺽ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻮﺗﺎﮨﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨﻮ ۔" ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽؓ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ : ﯾﺎ ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ؓ ! ﻣٙﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﺭﮨﺎ ﺣﻀﻮﺭﷺ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥِ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺳﻨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ " ﻋﻤﺮؓ ﺟﻨﺘﯽ ﮨﮯ ، ﻋﻤﺮؓ ﺟﻨﺘﯽ ﮨﮯ ، ﻋﻤﺮؓ ﺟﻨﺘﯽ ﮨﮯ ۔" ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻤﺮِ ﻓﺎﺭﻭﻕؓ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ " ﺍﮮ ﻋﻠﯽؓ ! ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﻭﮔﮯ ۔۔۔ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽؓ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ " ﮨﺎﮞ ! ﺿﺮﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ۔" ﻻﮐﮭﻮﮞ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﭘﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﺸﺎﻥ ﺻﺤﺎﺑﯽؓ ﺍﺱ ﺗﺼﻮﺭ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺭﻭﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﺍﺋﺾ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻮﺗﺎﮨﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨﻮ۔ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﻤﺎﮮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﮭﻨﺠﮭﻮﮌﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺍﮔﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺿﻤﯿﺮ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ ۔۔۔!
ﺍﮔﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﺎ ﺿﻤﯿﺮ ﻣﺮﺩﮦ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻖ ﻧﮩﯿﮟ !
طالب دعا


صوفیانہ کلام، ادب و تاریخ کے واقعات،  دلچسپ واقعات،حکایات،اقوالِِ زریں،سبق آموز قصے،کہانیاں پڑھنے کے لئے

اس پیج کو لائک کریں
تصویر اور تحریر بولتی ہے
https://www.facebook.com/Photospeaks895/

گروپ جوائن کریں
    "ادب و تاریخّ"
https://m.facebook.com/groups/1848472068706408?ref=bookmarks

واٹس ایپ گروپ
خلقہ ارباب ذوق
https://chat.whatsapp.com/7n5TGCQA7ICHIjMi92yArT
~" حکمران جوابدہ ہے۔۔۔۔
ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﺟﺐ ملعون ﺍﺑﻮ ﻟﻮﻟﻮ ﻓﯿﺮﻭﺯ  ﻧﮯ ﺧﻨﺠﺮ ﻣﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺁﭘﮑﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﻭﻗﺖ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻟﭩﺎﺩﻭ۔ ﺁﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻧﺎﮎ ﺭﮔﮍﺗﮯ تھے ﺭﻭﺗﮯ تھے ﺍﻭﺭ کہتے تھے ﮐﮧ " ﺍﮮ ﺍﻟﻠﻪ ! مجھے ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﮮ " ۔ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﮐﺮﻡ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺟﮩﮧ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮِ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ؓ" ﻋﻤﺮ ؓ ! ﮐﯿﺎ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﮈﺭﮔﺌﮯ ﮨﻮ ! ... ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻤﺮِ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ " ﺍﮮ ﻋﻠﯽؓ ! ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺭﺭﮨﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ ﻓﺮﺽ ﮐﯽ ﺟﻮﺍﺑﺪﮨﯽ ﺳﮯ ﮈﺭﺭﮨﺎﮨﻮﮞ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﻪ ﻧﮯ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﭘﮧ ﮈﺍﻻ ﺗﮭﺎ ۔ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻓﺮﺽ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻮﺗﺎﮨﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨﻮ ۔" ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽؓ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ : ﯾﺎ ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ؓ ! ﻣٙﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﺭﮨﺎ ﺣﻀﻮﺭﷺ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥِ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺳﻨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ " ﻋﻤﺮؓ ﺟﻨﺘﯽ ﮨﮯ ، ﻋﻤﺮؓ ﺟﻨﺘﯽ ﮨﮯ ، ﻋﻤﺮؓ ﺟﻨﺘﯽ ﮨﮯ ۔" ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻤﺮِ ﻓﺎﺭﻭﻕؓ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ " ﺍﮮ ﻋﻠﯽؓ ! ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﻭﮔﮯ ۔۔۔ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽؓ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ " ﮨﺎﮞ ! ﺿﺮﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ۔" ﻻﮐﮭﻮﮞ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﭘﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﺸﺎﻥ ﺻﺤﺎﺑﯽؓ ﺍﺱ ﺗﺼﻮﺭ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺭﻭﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﺍﺋﺾ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻮﺗﺎﮨﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨﻮ۔ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﻤﺎﮮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﮭﻨﺠﮭﻮﮌﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺍﮔﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺿﻤﯿﺮ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ ۔۔۔!
ﺍﮔﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﺎ ﺿﻤﯿﺮ ﻣﺮﺩﮦ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻖ ﻧﮩﯿﮟ !
طالب دعا


صوفیانہ کلام، ادب و تاریخ کے واقعات،  دلچسپ واقعات،حکایات،اقوالِِ زریں،سبق آموز قصے،کہانیاں پڑھنے کے لئے

اس پیج کو لائک کریں
تصویر اور تحریر بولتی ہے
https://www.facebook.com/Photospeaks895/

گروپ جوائن کریں
    "ادب و تاریخّ"
https://m.facebook.com/groups/1848472068706408?ref=bookmarks

واٹس ایپ گروپ
خلقہ ارباب ذوق
https://chat.whatsapp.com/7n5TGCQA7ICHIjMi92yArT

اقبال





نازشِ موسمِ گُل ، لالہء صحرائی تھا !

جو مُسلمان تھا اللہ کا سَودائی تھا !

کبھی محبُوب تمہارا یہی ہرجائی تھا !

کسی یکجائی سے اَب عہدِ غُلامی کر لو

ملتِ احمدِ مُرسل کو مقامی کر لو

کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے !

ہم سے کب پیار ہے ؟ ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے

طبع آذاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے

تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفا داری ہے ؟

قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں

جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو

نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو

بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو

بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے

کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟

صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟

نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟

میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !

کیا گیا ؟ بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدہء حُور

شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !

عدل ہے فاطرِ ھستی کا اَزل سے دستور

مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور

تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں

جلوہء طُور تو موجُود ہے مُوسٰی ہی نہیں

منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟

فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟

مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟

ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمد (ص) کا تمہیں پاس نہیں

جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب

زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب

نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب

پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے

زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذان روح ہلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خوان ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ مسلمان بھی ہو!

دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک

عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک

شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نم ناک

تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک

خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود

خالی از خویش شدن صورت مینایش بود

ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا

اس کے آئینۂِ ہستی میں عملِ جوہر تھا

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا

ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو

پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو!

ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے

تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟

حیدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے

تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم

تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم

چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم

پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم

تخت فغور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی

یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

خود کشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار

تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار

تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار

تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی

نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے

بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے

شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے

بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا

لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے

شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیمانہ نہ رہے

وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے

یہ ضروری ہے حجاب رُخ لیلا نہ رہے

گلہ جور نہ ہو، شکوۂ بیداد نہ ہو

عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!

عہد نو برق ہے، آتش زن ہرخرمن ہے

ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے

اس نئی آگ کا اقوام کہیں ایندھن ہے

ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آ





نازشِ موسمِ گُل ، لالہء صحرائی تھا !

جو مُسلمان تھا اللہ کا سَودائی تھا !

کبھی محبُوب تمہارا یہی ہرجائی تھا !

کسی یکجائی سے اَب عہدِ غُلامی کر لو

ملتِ احمدِ مُرسل کو مقامی کر لو

کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے !

ہم سے کب پیار ہے ؟ ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے

طبع آذاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے

تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفا داری ہے ؟

قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں

جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو

نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو

بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو

بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے

کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟

صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟

نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟

میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !

کیا گیا ؟ بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدہء حُور

شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !

عدل ہے فاطرِ ھستی کا اَزل سے دستور

مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور

تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں

جلوہء طُور تو موجُود ہے مُوسٰی ہی نہیں

منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟

فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟

مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟

ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمد (ص) کا تمہیں پاس نہیں

جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب

زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب

نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب

پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے

زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذان روح ہلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خوان ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ مسلمان بھی ہو!

دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک

عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک

شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نم ناک

تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک

خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود

خالی از خویش شدن صورت مینایش بود

ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا

اس کے آئینۂِ ہستی میں عملِ جوہر تھا

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا

ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو

پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو!

ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے

تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟

حیدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے

تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم

تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم

چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم

پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم

تخت فغور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی

یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

خود کشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار

تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار

تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار

تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی

نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے

بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے

شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے

بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا

لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے

شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیمانہ نہ رہے

وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے

یہ ضروری ہے حجاب رُخ لیلا نہ رہے

گلہ جور نہ ہو، شکوۂ بیداد نہ ہو

عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!

عہد نو برق ہے، آتش زن ہرخرمن ہے

ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے

اس نئی آگ کا اقوام کہیں ایندھن ہے

ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آ

بزم ساقی





میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر، جو نہیں کوئی تو ہم ہی سہی

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن سے قریں سہی

تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

شاعر نصیر الدین نصیر