Wednesday, 12 April 2017

ادب و تاریخ: مسدس حالی قسط 1

ادب و تاریخ: مسدس حالی قسط 1: مُسدّس کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا مرَض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا ...

مسدس حالی قسط 1

مُسدّس

کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا
مرَض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا

مگر وہ مَرَض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں

سبب یا علامت گر ان کو سُجھائیں
تو تشخیص میں سَو نکالیں خطائیں
دوا اور پرہیز سے جی چُرائیں
یونہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں

طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ

یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفاں بپا پے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے

نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی

گھٹا سر پہ ادبار کی چھا رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے
چپ و راست سے یہ صدا آ رہی ہے

کہ کل کون تھے آج کیا ہو گئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم

پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے
تنزّل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں پر رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے

نہ افسوس انہیں اپنی ذلّت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزّت پہ ہے کچھ

بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں
کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلّت سے نفرت نہ عزّت کا ارماں
نہ دوزخ سے ترساں نہ جنّت کے خواہاں

لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انھوں نے
کیا دینِ بر حق کو بدنام انھوں نے

وہ دیں جس نے اعدا کو اخواں بنایا
وحوش اور بہائم کو انساں بنایا
درندوں کو غمخوارِ دوراں بنایا
گڈریوں کو عالم کا سلطاں بنایا

وہ خطّہ جو تھا ایک ڈھوڑوں کا گلّہ
گراں کر دیا اس کا عالم سے پلّہ

(جاری ہے)

مولانا الطاف حسین حالی کی سوانح حیات قسط 2

غدر کے بعد جب کئی برس پانی پت میں بیکاری کی حالت میں گزر گئے تو فکرِ معاش نے گھر سے نکلنے پر مجبور کیا۔ حسنِ اتفاق سے نواب مصطفٰی خاں مرحوم، رئیسِ دہلی و تعلقہ دار جہانگیر آباد ضلع بلند شہر، سے جو فارسی میں حسرتی اور اردو میں شیفتہ تخلص کرتے تھے اور شاعری کا اعلٰی درجہ کا مذاق رکھتے تھے شناسائی ہو گئی اور آٹھ سات برس تک بطور مصاحبت کے ان کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا۔ نواب صاحب جس درجہ کے فارسی اور اردو زبان کے شاعر تھے اسکی نسبت ان کا مذاقِ شاعری بمراتب بلند تر اور اعلٰی تر واقع ہوا تھا۔ انہوں نے ابتدا میں اپنا فارسی اور اردو کلام مومن خاں کو دکھایا تھا، مگر انکے مرنے کے بعد وہ مرزا غالب سے مشورۂ سخن کرنے لگے تھے۔ میرے وہاں جانے سے انکا پرانا شعر و سخن کا شوق جو مدت سے افسردہ ہو رہا تھا، تازہ ہو گیا اور انکی صحبت میں میرا طبعی میلان بھی جو اب تک مکروہات کے سبب اچھی طرح ظاہر نہ ہونے پایا تھا چمک اٹھا۔ اسی زمانہ میں اردو اور فارسی کی اکثر غزلیں نواب مرحوم کے ساتھ لکھنے کا اتفاق ہوا۔ انہیں کے ساتھ میں بھی جہانگیر آباد سے اپنا کلام مرزا غالب کے پاس بھیجتا تھا مگر در حقیقت مرزا کے مشورہ و اصلاح سے مجھے چنداں فائدہ نہیں ہوا بلکہ جو کچھ فائدہ ہوا وہ نواب صاحب کی صحبت سے ہوا۔ وہ مبالغہ کو ناپسند کرتے تھے اور حقائق و واقعات کے بیان میں لطف پیدا کرنا اور سیدھی سادھی اور سچی باتوں کو محض حسنِ بیان سے دلفریب بنانا منتہائے کمال شاعری سمجھتے تھے۔ چھچھورے اور بازاری الفاظ و محاورات اور عامیانہ خیالات سے شیفتہ اور غالب دونوں متنفر تھے۔ نواب شیفتہ کے مذاق کا اندازہ اس واقع سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ ایک روز انیس کا ذکر ہو رہا تھا۔ انہوں نے انیس کے مرثیہ کا یہ مصرعہ پڑھا۔ ع

آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے

اور کہا کہ انیس نے ناحق مرثیہ لکھا، یہی ایک مصرعہ بجائے خود ایک مرثیہ کے برابر تھا۔ انکے خیالات کا اثر مجھ پر بھی پڑنے لگا اور رفتہ رفتہ ایک خاص قسم کا مذاق پیدا ہوگیا۔

نواب شیفتہ کی وفات کے بعد پنجاب گورنمنٹ بُک ڈپو میں ایک آسامی مجھ کو مل گئی جس میں مجھے یہ کام کرنا پڑتا تھا کہ جو ترجمے انگریزی سے اردو میں ہوتے تھے انکی اردو عبارت درست کرنے کو مجھے ملتی تھی۔ تقریباً چار برس میں نے یہ کام لاہور میں رہ کر کیا۔ اس سے انگریزی لٹریچر کے ساتھ فی الجملہ مناسبت پیدا ہو گئی۔ لاہور ہی میں کرنیل ہالرانڈ، ڈائرکٹر آف پبلک انسٹرکشن پنجاب کے ایما سے مولوی محمد حسین آزاد نے اپنے پرانے ارادے کو پورا کیا، یعنی 1874ء میں ایک مشاعرے کی بنیاد ڈالی جو ہندوستان میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل نیا تھا، اور جس میں بجائے مصرعہ طرح کے کسی مضمون کا عنوان شاعروں کو دیا جاتا تھا کہ اس مضمون پر اپنے خیالات جس طرح چاہیں نظم میں ظاہر کریں۔ میں نے بھی اسی زمانہ میں چار مثنویاں، ایک برسات پر، دوسری امید پر، تیسری رحم و انصاف پر، چوتھی حبِ وطن پر لکھیں۔

اسکے بعد میں لاہور سے دہلی میں اینگلو عربک سکول کی مدرسی پر بدل آیا۔ یہاں آ کر اول میں نے ایک آدھ نظم بطور خود اسی طرز کی جس کی تحریک لاہور میں ہوئی تھی، لکھی۔ پھر سر سید احمد خاں مرحوم نے ترغیب دلائی کہ مسلمانوں کی موجودہ پستی و تنزل کی حالت اگر نظم میں بیان کی جائے تو مفید ہوگی، چنانچہ میں نے اول مسدس مد و جزر اسلام اور اسکے بعد اور نظمیں جو چھپ کر بار بار شائع ہو چکی ہیں، لکھیں۔

نظم کے سوا اردو نثر میں بھی چند کتابیں لکھی ہیں، سب سے پہلے غالباً 1867ء میں ایک کتاب تریاقِ مسموم ایک نیٹو کرسچن کی کتاب کے جواب میں، جو میرا ہم وطن تھا اور مسلمان سے عیسائی ہوا تھا، لکھی تھی۔ جس کو اسی زمانہ میں لوگوں نے مذہبی میگزینوں میں شائع کر دیا تھا۔ اسکے بعد لاہور میں ایک عربی کتاب کا جو جیولوجی میں تھی اور فرنچ سے عربی میں کسی مصری فاضل نے ترجمہ کی تھی، اردو میں ترجمہ کیا اور اسکا کاپی رائٹ بغیر کسی معاوضہ کے پنجاب یونیورسٹی کو دے دیا۔ چنانچہ ڈاکٹر لائٹز کے زمانہ میں اسکو پنجاب یونیورسٹی نے چھاپ کر شائع کر دیا تھا۔ مگر اول تو وہ اصل کتاب پچاس ساٹھ برس کی لکھی ہوئی تھی جبکہ جیولوجی کا علم ابتدائی حالت میں تھا، دوسرے مجھ کو اس فن سے محض اجنبیت تھی، اسلئے اصل اور ترجمہ دونوں غلطیوں سے خالی نہ تھے۔ لاہور ہی میں ایک کتاب عورتوں کی تعلیم کیلئے قصہ کے پیرایہ میں موسوم بہ مجالس النساء لکھی تھی جس پر کرنل ہالرانڈ نے ایک ایجوکیشنل دربار میں بمقام دہلی مجھے لارڈ نارتھ بروک کے ہاتھ سے چار سو روپیہ کا انعام دلوایا تھا اور جو اودھ اور پنجاب کے مدارسِ نسواں میں مدت تک جاری رہی اور شاید اب بھی کبھی کہیں جاری ہو۔ پھر دلی میں سعدی شیرازی کی لائف اور انکی نظم و نثر پر ریویو لکھ کر شائع کیا، جسکا نام حیاتِ سعدی ہے اور جس کے دس بارہ ایڈیشن اب سے پہلے شائع ہوچکے ہیں۔ پھر شاعری پر ایک مبسوط ایسے (Essay) لکھ کر بطور مقدمہ کے اپنے دیوان کے ساتھ شائع کیا۔ اسکے بعد مرزا غالب مرحوم کی لائف جس میں ان کی فارسی اور اردو نظم و نثر کا انتخاب بھی شامل ہے اور نیز ان کی شاعری پر بھی ریویو لکھا گیا ہے جو یادگارِ غالب کے نام سے لکھ کر شائع کی۔ اور اب سر سید احمد خاں مرحوم کی لائف موسوم بہ حیاتِ جاوید جو تقریباً ہزار صفحہ کی کتاب ہے، لکھی۔ جو امید ہے کہ مارچ یا اپریل میں شائع کی جائے گی۔

اسکے سوا اور بھی بعض کتابیں فارسی گرامر وغیرہ میں لکھی ہیں جو چنداں ذکر کے قابل نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ تیس بتیس مضمون بھی مختلف عنوانوں پر مختلف اوقات میں لکھے جو تہذیب الاخلاق علی گڑھ گزٹ اور دیگر اخبارات یا رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ نیز اردو کے علاوہ فارسی میں کسی قدر زیادہ اور عربی میں کم میری نظم و نثر موجود ہے جو ہنوز شائع نہیں ہوئی۔ جب سے ان دونوں زبانوں کا رواج ہندوستان میں کم ہونے لگا ہے اس وقت سے انکی طرف توجہ نہیں رہی۔ میری سب سے اخیر فارسی نظم وہ ترکیب بند ہے جو سر سید کی وفات پر میں نے 1898ء میں لکھا تھا اور اردو میں سب سے اخیر وہ نظم ہے جو حال میں ایمپرس وکٹوریا کی وفات پر لکھی ہے اور علی گڑھ گزٹ میں شائع ہو چکی ہے۔

1305ھ میں جب کہ میں اینگلو عربک سکول دہلی میں مدرس تھا، نواب سر عثمان جاہ بہادر مرحوم مدار المہام سرکار عالی نظام اثنائے سفر شملہ میں علی گڑھ محمڈن کالج کے لئے سر سید احمد خاں مرحوم کی کوٹھی واقع علی گڑھ میں فروکش ہوئے تھے اور میں بھی اس وقت علی گڑھ گیا ہوا تھا۔ نواب صاحب ممدوح نے بصیغۂ امدادِ مصنفین ایک وظیفہ تعداد پچھتر روپے ماہوار کا میرے لئے مقرر فرمایا اور 1309ھ میں جب کہ میں سر سید مرحوم کے ہمراہ بشمول دیگر ممبران ڈیپوٹیشن ٹرسٹیان محمڈن کالج علی گڑھ، حیدر آباد گیا تھا اس وظیفہ میں پچیس روپے ماہوار کا اضافہ کر کے سو روپیہ سکۂ حالی کا وظیفہ میرے لئے مقرر کر دیا جو اب تک مجھ کو ماہ بماہ سرکار سے ملتا ہے اور اسی وقت سے میں نے اینگلو عربک سکول کا تعلق قطع کر دیا ہے۔

شمس العلما مولانا الطاف حسین حالی کی سوانح حیات جو آپ نے بواب عمادالملک بہادر مولوی سید حسن صاحب بلگرامی کی فرمائش پر سپردِ قلم کی

شمس العلما مولانا الطاف حسین حالی کی سوانح حیات
جو آپ نے نواب عماد الملک بہادر
مولوی سید حسین صاحب بلگرامی
کی فرمائش سے سپردِ قلم کی​



میری ولادت تقریباً 1253ھ مطابق 1837ء میں بمقام قصبہ پانی پت جو شاہجہان آباد سے جانبِ شمال 53 میل کے فاصلہ پر ایک قدیم بستی ہے، واقع ہوئی۔ اس قصبہ میں کچھ کم سات سو برس سے قوم انصار کی ایک شاخ جس سے راقم کو تعلق ہے، آباد چلی آتی ہے۔ ساتویں صدی ہجری اور تیرہویں صدی عیسوی میں جب کہ غیاث الدین بلبن تختِ دہلی پر متمکن تھا، شیخ الاسلام خواجہ عبداللہ انصاری معروف بہ پیرِ ہرات کی اولاد میں سے ایک بزرگ خواجہ ملک علی نام جو علومِ متعارفہ میں اپنے عام معاصرین سے ممتاز تھے، ہرات سے ہندوستان میں وارد ہوئے۔ جن کا سلسلۂ نسب 62 واسطہ سے حضرت ابو ایوب انصاری (رح) تک اور 18 واسطہ سے شیخ السلام تک اور 10 واسطہ سے ملک محمود شاہ انجو ملقب بہ آق خواجہ تک جو غزنوی دور میں فارس و کرمان و عراق عجم کا فرمانروا تھا پہنچتا ہے۔ چونکہ غیاث الدین اس بات میں نہایت مشہور تھا کہ وہ قدیم اشراف خاندانوں کی بہت عزت کرتا ہے اور اسکا بیٹا سلطان محمد علما و شعرا و دیگر اہلِ کمال کا حد سے زیادہ قدر دان تھا، اسلئے اکثر اہلِ علم اور عالی خاندان لوگ ایران و ترکستان سے ہندوستان کا قصد کرتے تھے۔ اسی شہرت نے خواجہ ملک علی کو سفرِ ہندوستان پر آمادہ کیا تھا۔ چنانچہ غیاث الدین نے چند عمدہ اور سیر حاصل دیہات پرگنہ پانی پت میں اور متعدد بہ اراضی سوادِ قصبہ پانی پت میں بطور معاش کے اور بہت سی زمین اندروں آبادی قصبہ پانی پت واسطے سکونت کے انکو عنایت کی۔ اور منصبِ قضا و صدارت و تشخیص رخِ بازار اور تولیتِ مزاراتِ آئمہ جو سوادِ پانی پت میں واقع ہیں اور خطابت عیدین ان سے متعلق کر دی۔ پانی پت میں جو اب تک ایک محلہ انصاریوں کا مشہور ہے وہ انہیں بزرگ کی اولاد سے منسوب ہے۔ میں باپ کی طرف سے اسی شاخِ انصار سے علاقہ رکھتا ہوں اور میری والدہ سادات کے ایک معزز گھرانے کی، جو یہاں ساداتِ شہدا کے نام سے مشہور ہیں، بیٹی تھیں۔

میری ولادت کے بعد میری والدہ کا دماغ مختل ہو گیا تھا۔ میرے والد نے سنِ کہولت میں انتقال کیا جبکہ میں نو برس کا تھا۔ اس لئے میں نے ہوش سنبھال کر اپنا سر پرست بھائی بہنوں کے سوا کسی کو نہیں پایا۔ انہوں نے اول مجھ کو قرآن حفظ کرایا، اسکے بعد اگرچہ تعلیم کا شوق خود بخود میرے دل میں حد سے زیادہ تھا مگر باقاعدہ اور مسلسل تعلیم کا کبھی موقع نہیں ملا۔ ایک بزرگ سید جعفر علی مرحوم جو ممنون دہلوی کے بھتیجے نیز داماد بھی تھے اور بوجہ تعلقِ زنان شوئی کے پانی پت میں مقیم تھے اور فارسی لٹریچر اور تاریخِ طب میں یدِ طولٰی رکھتے تھے، ان سے دو چار فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں اور انکی صحبت میں فارسی لٹریچر سے ایک نوع کی مناسبت پیدا ہو گئی۔ پھر عربی کا شوق پیدا ہوگیا۔ انہی دنوں میں مولوی حاجی ابراہیم حسین انصاری مرحوم لکھنو سے امامت کی سند لے کر آئے تھے، ان سے صرف و نحو پڑھی۔ مگر چند روز بعد بھائی اور بہن نے جن کو میں بمنزلہ والدین کے سمجھتا تھا، تاہل پر مجبور کیا۔ اس وقت میری عمر 17 برس کی تھی اور زیادہ تر بھائی کی نوکری پر سارے گھر کا گزارہ تھا، کہ یہ جؤا میرے کندھے پر رکھا گیا۔ اب بظاہر تعلیم کے دروازے چاروں طرف سے مسدود ہو گئے۔ سب کی خواہش تھی کہ میں نوکری تلاش کروں، مگر تعلیم کا شوق غالب تھا اور بیوی کا میکہ آسودہ حال تھا۔ میں گھر والوں سے روپوش ہو کر دلی چلا گیا اور قریب ڈیڑھ برس کے وہاں رہ کر کچھ صرف و نحو اور کچھ ابتدائی کتابیں منطق کی پڑھیں۔ اگرچہ اس وقت قدیم دہلی کا کالج خوب رونق پر تھا مگر جس سوسائٹی میں مَیں نے نشو و نما پائی تھی وہاں تعلیم کو صرف عربی اور فارسی زبان پر منحصر سمجھا جاتا تھا۔ انگریزی تعلیم کا خاص کر پانی پت میں اول تو کہیں ذکر ہی سننے میں نہ آتا تھا کہ اگر اسکی نسبت لوگوں کو کچھ خیال تھا تو صرف اس قدر کہ سرکاری نوکری کا ایک ذریعہ ہے، نہ یہ کہ اس سے کوئی علم حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ بر خلاف اسکے انگریزی مدرسوں کو ہمارے علماء جہلے کہتے تھے۔ دلی پہنچ کر جس مدرسہ میں مجھ کو شب و روز رہنا پڑا وہاں کے مدرس اور طلبہ انگریزی کے تعلیم یافتہ لوگوں کو محض جاہل سمجھتے تھے۔ غرض بھول کر بھی انگریزی تعلیم کا خیال دل میں نہ گزرتا تھا۔ ڈیڑھ برس دلی میں رہنا پڑا، اس عرصہ میں کبھی کالج کو جا کر آنکھ سے دیکھا تک نہیں، اور نہ ان لوگوں سے کبھی ملنے کا اتفاق ہوا جو اس وقت کالج میں تعلیم پاتے تھے جیسے مولوی ذکاءاللہ، مولوی نذیر احمد، مولوی محمد حسین آزاد وغیرہ۔

میں نے دلی میں شرح ملا حسن اور میبذی پڑھنی شروع کی تھی کہ سب عزیزوں اور بزرگوں کے جبر سے چار و ناچار مجھ کو دلی چھوڑنا اور پانی پت واپس آنا پڑا۔ یہ ذکر 1855ء کا ہے۔ دلی سے آ کر برس ڈیڑھ برس تک پانی پت سے کہیں جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ یہاں بطور خود اکثر بے پڑھی کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا۔ 1856ء میں مجھے ضلع حصار میں ایک قلیل تنخواہ کی اسامی صاحب کلکٹر کے دفتر میں مل گئی۔ لیکن 57ء میں جبکہ سپاہِ باغی کا فتنہ ہندوستان میں برپا ہوا اور حصار میں بھی اکثر سخت واقعات ظہور میں آئے اور سرکاری علمداری اٹھ گئی تو میں وہاں سے پانی پت چلا آیا اور قریب چار برس کے (پانی پت میں) بیکاری کی حالت میں گزارے۔ اس عرصہ میں مشہور فضلا مولوی عبدالرحمٰن، مولوی محب اور مولوی قلندر علی مرحوم سے بغیر کسی ترتیب اور نظام کے کبھی منطق یا فلسفہ کبھی حدیث کبھی تفسیر پڑھتا رہا، اور جب ان صاحبوں میں سے کوئی پانی پت میں نہ ہوتا تھا تو خود بغیر پڑھی کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا۔ اور خاص کر علم ادب کی کتابیں شرح اور لغات کی مدد سے اکثر دیکھتا تھا، اور کبھی کبھی عربی نظم و نثر بھی بغیر کسی کی اصلاح یا مشورے کے لکھتا تھا، مگر اس پر اطمینان نہ ہوتا تھا۔ میری عربی اور فارسی تحصیل کا منتہٰی صرف اسی قدر ہے جس قدر اوپر ذکر کیا گیا۔

جس زمانہ میں میرا دلی جانا ہوا تھا، مرزا اسد اللہ خاں غالب مرحوم کی خدمت میں اکثر جانے کا اتفاق ہوتا تھا اور اکثر انکے اردو فارسی دیوان کے اشعار جو سمجھ میں نہ آتے تھے، ان کے معنی ان سے پوچھا کرتا تھا۔ اور چند فارسی قصیدے انہوں نے اپنے دیوان میں سے مجھے پڑھائے بھی تھے۔ انکی عادت تھی کہ وہ اپنے ملنے والوں کو اکثر فکرِ شعر سے منع کیا کرتے تھے مگر میں نے جو ایک آدھ غزل اردو یا فارسی کی لکھ کر ان کو دکھائی تو انہوں نے مجھ سے یہ کہا کہ اگرچہ میں کسی کو فکرِ شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا لیکن تمھاری نسبت میرا یہ خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے۔ مگر اس زمانے میں ایک دو غزل سے زیادہ دلی میں شعر لکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

ادب و تاریخ: کچھ "مسدس حالی "کے بارے میں

ادب و تاریخ: کچھ "مسدس حالی "کے بارے میں: اردو شاعری میں  مولانا حالی  کا اعلی ترین کارنامہ ان کی طویل نظم ”مدوجزر اسلام“ ہے جو عام طور پر ”مسدس حالی“ کے نام سے مشہور ہوئی ۔ یہ نظم ا...

کچھ "مسدس حالی "کے بارے میں

اردو شاعری میں مولانا حالی کا اعلی ترین کارنامہ ان کی طویل نظم ”مدوجزر اسلام“ ہے جو عام طور پر ”مسدس حالی“ کے نام سے مشہور ہوئی ۔ یہ نظم اس قدر مقبول ہوئی کہ اس نے مقبولیت اور شہرت کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کہا جاتا ہے کہ کئی سال تک برصغیر کے طول و عرض میں جو کتاب قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ شائع ہوئی وہ ”مسدس حالی“ تھی۔ بقول سر سید احمد خان،

”بے شک میں اس کا محرک ہوا ہوں اور اس کو میں اپنے اعمال حسنہ میں سے سمجھتا ہوں کہ جب خدا پوچھے گا کہ دنیا سے کیا لایا۔ میں کہوں گا کہ حالی سے مسدس حالی لکھوا کر لا یا ہوں اور کچھ نہیں“

مولانا نے جس میدان میں بھی قدم رکھا اس میں شمشیر قلم کا لوہا منوایا۔ خواہ وہ نظمکی اختراع ہو یا سادہ نثر کی تخلیق غزلکی رنگینی ہو، یا مرثیے کا سوز، قصیدے کی شان و شوکت ہو یا نظم کی آن ہو ۔ ناصح کے روپ میں ہوں یا مصلح قوم ۔ غرض یہ کہ جس میدان میں بھی قدم رکھا، اپنی حیثیت کو تسلیم کروایا ۔ مولانا نے ”مسدس“ میں اپنی قوم کو اس کے عروج و زوال کے افسانے ایسے دلکش انداز اور دلنشین پیرائے میں سنائے کہ قوم تڑپ اٹھی اور اپنی ناکامی و نامرادی کے اسباب اور وجوہات کی کھوج میں لگ گئی۔ مسدس حالی مسلمانوں کی بالخصوص اور ہندوستان کی بالعموم اس وقت کے فکری اور تاریخی غداری کی داستان ہے۔ جس میں مسلمانوں نے اپنے مقاصد کے ساتھ غداری کرکے اپنے لئے اپنے مسخ شدہ ضمیر کا دوزخ خریدا۔