مُسدّس
کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا
مرَض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مَرَض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
سبب یا علامت گر ان کو سُجھائیں
تو تشخیص میں سَو نکالیں خطائیں
دوا اور پرہیز سے جی چُرائیں
یونہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفاں بپا پے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھا رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے
چپ و راست سے یہ صدا آ رہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہو گئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم
پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے
تنزّل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں پر رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلّت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزّت پہ ہے کچھ
بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں
کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلّت سے نفرت نہ عزّت کا ارماں
نہ دوزخ سے ترساں نہ جنّت کے خواہاں
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انھوں نے
کیا دینِ بر حق کو بدنام انھوں نے
وہ دیں جس نے اعدا کو اخواں بنایا
وحوش اور بہائم کو انساں بنایا
درندوں کو غمخوارِ دوراں بنایا
گڈریوں کو عالم کا سلطاں بنایا
وہ خطّہ جو تھا ایک ڈھوڑوں کا گلّہ
گراں کر دیا اس کا عالم سے پلّہ
(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment